مرتد کی سزا قرآن وحدیث کی روشنی میں

  • بسم الله الرحمن الرحيم

    اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

    مرتد کی سزا قرآن وحدیث کی روشنی میں

    ۲۰۱۴کے پارلیمانی الیکشن کے بعد ہندوستان کی سیاست میں زبردست تبدیلی رونما ہوئی ہے، جس کی وجہ سے فرقہ پرست عناصر کے حوصلے بہت بڑھ گئے ہیں اور انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرکے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نیست ونابود کرنے کی سرگرمیوں کو تیز کردیا ہے۔ چنانچہ کبھی شر آمیز بیانات سے مدارس اسلامیہ کی کردار کشی کی جارہی ہے تو کبھی ’’لو جہاد‘‘ کے نام سے ہندوؤں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کے بیج بوکر یہاں پرامن ماحول کو بگاڑا جارہا ہے۔ تازہ واقعہ آگرہ کا ہے جہاں ایک فتنہ پرور تنظیم نے پیسوں اور دیگر مادی فوائد کا لالچ دے کر غریب مسلمانوں کو ہندو بنانے کی ناپاک کوشش کی ہے اور اپنے اس عمل کو ’’گھر واپسی‘‘ کا نام دیا ہے، جس کی وجہ سے صورت حال بد سے بدتر ہونے کا خدشہ ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر میں مذہب کی تبدیلی یعنی مرتد ہوجانا انسان کے لئے بہت بڑی مصیبت ہے جو دنیا وآخرت ہر اعتبار سے انسان کو برباد کرنے والی ہے۔ لہٰذا میں نے ضرورت محسوس کی کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں اس تباہ کن گناہ کا ذکر کروں تاکہ عام لوگ اس کے بڑے بڑے نقصانات سے واقف ہوسکیں۔ الحمد للہ! آگرہ کے مسلمانوں کی تبدیلی مذہب حقیقت میں اُن کے ساتھ ایک دھوکہ ثابت ہوئی جو بہت جلدی ہی ان کے سامنے واضح ہوگیا جس سے فوراً ہی وہ حضرات اپنے حقیقی مالک ورازق وخالق سے تائب ہوکر اپنے مذہب اسلام میں واپس آگئے ۔ اللہ تعالیٰ ان کو اسلام پر ثابت قدم رکھے، ہم تمام مسلمانوں کو دشمنان اسلام کے ناپاک ارادوں سے محفوظ فرمائے اور ہمارا خاتمہ ایمان پر فرمائے۔ مضمون کے آخر میں چند ایسی تدابیر بھی ذکر کی ہیں جن کے ذریعہ ہم اس تباہ کن گناہ سے خود بھی بچ سکتے ہیں اور اپنے بھائیوں کو بھی محفوظ رکھ سکتے ہیں۔
    اسلام میں غیر مسلموں کے لئے تبلیغ وترغیب تو ہے لیکن اسلامی تعلیمات کے مطابق جبراً کسی غیر مسلم کو مسلمان نہیں بنایا جاسکتا۔ لیکن اگر کوئی شخص اسلام سے پھر جائے یعنی مرتد ہوجائے تو پہلے اسے دوبارہ مذہب اسلام قبول کرنے کی ترغیب دی جائے گی اور ہر ممکن کوشش کی جائے گی کہ وہ دوبارہ مذہب اسلام اختیار کرلے تاکہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے دردناک عذاب سے بچ جائے۔ اگر دین اسلام سے پھرنے والا یعنی مرتد مذہب اسلام کو دوبارہ اختیار کرلیتا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ سے توبہ واستغفار کے ساتھ کلمہ شہادت بھی پڑھنا ہوگا، لیکن اگر کوئی مرتد دوبارہ اسلام قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے تو جس طرح دنیاوی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والوں کو پھانسی پر لٹکایا جاتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کے باغی کو بھی کسی طرح کی رعایت نہیں دی جائے گی اور اسے اسلامی حکومت قتل کرائے گی جیساکہ ابتداء اسلام سے آج تک تمام مفسرین، محدثین، فقہاء وعلماء کرام نے قرآن وحدیث اور خلفاء راشدین کے اقوال وافعال کی روشنی میں فیصلہ فرمایا ہے۔ ہندوستان جیسے غیر مسلم ممالک میں اس حکم کی تنفیذ اگرچہ نہیں ہوسکتی، پھر بھی کم از کم ایک مسلمان کو یہ ضرور معلوم ہونا چاہئے کہ شوہر کے مرتد ہونے پر بیوی کا اس کے ساتھ رہنا جائز نہیں، اس کے مسلمان والدین یا قریبی رشتہ دار کے انتقال پر اس کو وراثت میں کوئی حصہ نہیں ملے گا اور ارتداد کی حالت میں انتقال پر اس کی نماز جنازہ بھی نہیں پڑھی جائے گی اور نہ مرنے کے بعد اس کے لئے استغفار کیا جائے گا،وغیرہ وغیرہ۔
    آیات قرآنیہ:
    اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل کے بعض لوگوں کا ذکر فرمایا ہے کہ وہ بچھڑے کی عبادت کرنے کی وجہ سے مرتد ہوگئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق حکم فرمایا: فَتُوْبُوْا اِلیٰ بَارِءِکُمْ فَاقْتُلُوْا اَنْفُسَکُمْ (سورۃ البقرۃ، آیت ۵۴) لہٰذا اب اپنے خالق سے توبہ کرو اور اپنے آپ کو قتل کرو۔ اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے تحریر کیا ہے کہ جن لوگوں نے گؤ سالہ پرستی کی تھی اور مرتد ہوگئے تھے، ان کو اُن لوگوں کے ہاتھوں سے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق قتل کرایا گیا جنہوں نے بچھڑے کی پوجا نہیں کی تھی۔ ان لوگوں کا واقعہ بیان فرماکر اللہ تعالیٰ سورۃ الاعراف، آیت ۱۵۲ میں ارشاد فرماتا ہے: وَکَذالِکَ نَجْزِی الْمُفْتَرِیْنَ اور یہی سزا ہم دیتے ہیں بہتان باندھنے والوں کو۔ بنی اسرائیل کے اس واقعہ کے ضمن میں اللہ تعالیٰ نے اپنی عادت جاریہ بیان فرمائی کہ مرتد ہونے والے شخص کو ایسی ہی سزا دیتے ہیںیا دیں گے کیونکہ نَجْزِی فعل مضارع کا صیغہ ہے جس میں حال اور مستقبل دونوں کے معنی پائے جاتے ہیں۔ غرضیکہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اسلام سے مرتد ہونے والے شخص کے متعلق اپنا فیصلہ بیان فرمایا۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں علماء امت کا اتفاق ہے کہ گزشتہ شریعتوں کے احکام جب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے بیان کئے ہوں اور ان پر کوئی نکیر نہ کی ہو تو اس امت پر وہ عمل اسی نوعیت سے باقی رہے گا۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مرتد ہونے والے شخص کو وَکَذَالِکَ نَجْزِی الْمُفْتَرِےْنَ کہہ کر قتل کرنے کی تایید کی ہے۔ نیز قرآن کریم کے پہلے مفسر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   نے مرتد ہونے والے شخص کو واضح طورپر قتل کرنے کا حکم دیا ہے۔
    زمین میں فساد برپا کرنے والوں اور قتل وغارت گری کرنے والوں کے لئے سورۃ المائدہ، آیت ۳۳ میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِےْنَ ےُحَارِبُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ۔۔۔۔۔۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   کے اقوال وافعال کی روشنی میں مفسرین نے تحریر کیا ہے کہ یہ آیت اُن لوگوں کے بارے میں بھی ہے جو مرتد ہوگئے ہوں۔ چنانچہ عکل اور عرینہ والوں کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   نے بیت المال کے اونٹوں کو ہنکالے جانے اور ان چرواہوں کو قتل کرنے کے جرم میں جو عبرت انگیز سزا دی، امام بخاری ؒ نے اس واقعہ کو اسی آیت کے تحت ذکر کیا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مانعین زکوٰۃ کی جو سرکوبی کی وہ اسی حکم کے تحت کی۔ مسیلمہ کذاب کا فتنہ بھی اسی محاربۃ اللہ ورسولہ کے تحت آتا ہے۔
    احادیث نبویہ:
    حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   نے ارشاد فرمایا: مَنْ بَدَّلَ دِےْنَہُ فَاقْتُلُوْہُ جس نے اپنا دین (اسلام) بدل دیا تو اس کو قتل کردو۔۔۔ صحیح بخاری، ترمذی، ابوداود، ابن ماجہ، مسند احمد
    حضرت زید بن اسلم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   نے ارشاد فرمایا: مَنْ غَیَّرَ دِےْنَہُ فَاضْرِبُوا عُنُقَہُ جس نے اپنا دین (اسلام) بدل دیا تو اس کی گردن کو اڑادو۔ ۔۔موطا مالک
    حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   نے یمن کے ایک صوبے کا گورنر بناکر بھیجا جبکہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو ان کے بعد دوسرے صوبے کا گورنر بناکر بھیجا ۔حضرت معاذ رضی اللہ عنہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے ملاقات کے لئے گئے، حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے اکرام ضیف کے لئے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے لئے تکیہ ڈالا اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہ ابھی سوار تھے کہ انہوں نے حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص بندھا ہوا دیکھا۔ پوچھا یہ کون ہے؟ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ پہلے یہودی تھا پھر مسلمان ہوا، اس کے بعد پھر یہودی ہوگیا۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہا اے معاذ! بیٹھ جاؤ۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب تک اس کو قتل نہیں کیا جائے گا، میں نہیں بیٹھوں گا۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا یہی فیصلہ ہے۔ تین دفعہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے یہی فرمایا۔ پھر اس مرتد کے بارے میں قتل کا حکم دیا گیا اور وہ قتل کردیا گیا۔ ۔۔صحیح بخاری، صحیح مسلم
    حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   نے ارشاد فرمایا کہ کسی مسلمان کا جو اس بات کی گواہی دیتا ہوکہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں، خون بہانا جائز نہیں مگر تین چیزوں میں سے کسی ایک کے ارتکاب پر۔ شادی شدہ ہونے کے بعد زنا کرے۔ کسی کو قتل کردے تو اس کے قصاص میں قتل کیا جائے گا۔ اپنے دین اسلام کو چھوڑکر ملت سے خارج ہوجائے تو قتل کیا جائے گا۔۔۔ صحیح بخاری وصحیح مسلم، ابوداود، ابن ماجہ، مسند احمد
    حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا کہ کسی مسلمان آدمی کا خون حلال نہیں ہے مگر تین چیزوں سے۔ ۱) یہ کہ شادی کے بعد زنا کرے۔ ۲) کسی انسان کو قتل کردے۔ ۳) اسلام کے بعد کفر اختیار کرے تو اس کو قتل کیا جائے گا۔۔۔ نسائی، ابوداود، مسند احمد
    ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   نے ارشاد فرمایا : مَنْ ارْتَدَ عَنْ دِےْنِہِ فَاقْتُلُوْہ جو شخص اپنے دین (اسلام) سے پھر گیا تو اسے قتل کردو۔۔۔ مصنف عبد الرزاق
    مشہور تابعی حضرت ابوقلابہ رحمۃاللہ علیہ نے خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبد العزیز ؒ کی بھری ہوئی عدالتی اور علمی مجلس میں یہ حدیث بیان فرمائی کہ اللہ کی قسم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   نے کبھی بھی کسی کو قتل نہیں کیا مگر تین جرائم میں۔ ۱)وہ شخص جو ناحق کسی کو قتل کرتا تو اسے قصاص میں قتل کرتے۔ ۲) شادی کے بعد زنا کرتا تو اسے قتل کرتے۔ ۳) اسلام سے پھر کر مرتد ہوجاتا تو اسے قتل کرتے۔۔۔صحیح بخاری
    غرضیکہ دنیا میں حدیث کی کوئی بھی مشہور ومعروف کتاب ایسی موجود نہیں ہے جس میں توبہ نہ کرنے پر مرتد کو قتل کئے جانے کے متعلق رحمۃ للعالمین کا ارشاد موجود نہ ہو۔
    خلفاء راشدین اور قتل مرتد:
    شیخ جلال الدین سیوطیؒ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   کی وفات ہوئی اور مدینہ منورہ کے اردگرد میں بعض حضرات مرتد ہوگئے تو خلیفہ وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شرعی حکم کے مطابق ان کے قتل کے لئے کھڑے ہوگئے، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ وقت کی نزاکت کے پیش نظر ان کے قتل میں تامل کررہے تھے، لیکن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگرچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   کی وفات ہوگئی اور وحی منقطع ہوگئی، لیکن اللہ کی قسم میں ضرور ان سے اس وقت تک جہاد کرتا رہوں گا جب تک میرا ہاتھ تلوار کو پکڑسکے گا۔۔۔ تاریخ الخلفاء
    اس واقعہ کے بعد حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ مسیلمہ کذاب کی طرف متوجہ ہوئے جو نبوت کا دعویٰ کرنے کی وجہ سے اجماع صحابہ مرتد قرار دیاگیا تھا، چنانچہ ایک لشکر حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں اس کی طرف روانہ کیا گیا جس نے مسیلمہ کذاب کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔۔۔ فتح الباری
    حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ اہل عراق میں سے ایک مرتد جماعت کو گرفتار کیا اور ان کی سزا کے بارے میں مشورہ کے لئے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو خط لکھا، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب میں تحریر کیا کہ ان پر دین حق پیش کرو، اگر قبول کرلیں تو ان کو چھوڑدو ورنہ قتل کردو۔ اسی طرح حضرت امام بخاری ؒ نے تحریر کیا ہے کہ حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ نے بعض مرتدین کو قتل کیا۔ (صحیح بخاری) یہ ان خلفاء راشدین کا عمل ہے جن کی اقتداء کے لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   نے قیامت تک آنے والی پوری امت کو حکم دیا ہے: تم پر لازم ہے کہ میری سنت اور میرے خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑو۔ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں مختار بن ابی عبید کو نبوت کا دعویٰ کرنے پر قتل کیا تھا۔۔۔ فتح الباری
    علماء امت کے اقوال:قرآن وحدیث کی روشنی میں خیر القرون سے عصر حاضر تک کے جمہور علماء کا اتفاق ہے کہ مرتد کو قتل کیا جائے گا اگر وہ توبہ کرکے دوبارہ اسلام میں واپس آنے کے لئے تیار نہیں ہے، اختصار کے مدنظر صرف چاروں ائمہ کی رائے ذکر کردیتا ہوں:
    حضرت امام ابوحنیفہؒ : عقیدہ کی سب سے مشہور ومعروف کتاب تحریر کرنے والے مصری حنفی عالم امام طحاویؒ حضرت امام ابوحنیفہؒ اور علماء احناف کا قول نقل کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ مرتد کے بارے میں علماء کی آراء مختلف ہیں کہ کیا اس سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے گا یا نہیں؟ علماء کی ایک جماعت کہتی ہے کہ اگر حاکم مرتد سے توبہ کرنے کا مطالبہ کرے تو اچھا ہے، توبہ نہ کرے تو قتل کردیا جائے۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ ، حضرت امام ابویوسفؒ اور حضرت امام محمد ؒ کا یہی قول ہے۔ علماء کی دوسری جماعت فرماتی ہے کہ مرتد سے توبہ کا مطالبہ نہ کیا جائے جیساکہ دار الحرب کے کفار کو جب دعوت اسلام پہنچ جائے تو پھر ان کو اسلام کی دعوت دینے کی ضرورت نہیں۔ نہ پہنچی ہوتو دعوت دی جائے اور توبہ کا مطالبہ اس وقت واجب ہے جبکہ کوئی شخص اسلام سے بے سمجھی کی وجہ سے کفر کی طرف چلا جائے۔ رہا وہ شخص جو سوچے سمجھے طریقہ پر اسلام سے کفر کی طرف چلاجائے تو اسے قتل کیا جائے گا اور اس سے توبہ کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا ۔ ہاں اگر وہ میرے اقدام سے پہلے ہی توبہ کرلے تو میں اسے چھوڑدوں گا اور اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کردوں گا۔۔۔طحاوی ۔ کتاب السیر
    حضرت امام مالک ؒ : اس شخص کے بارے میں جو اسلام سے پھر جائے امام مالکؒ حضرت زید بن اسلم ؒ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا جس شخص نے اپنا دین بدل دیا تو تم اس کی گردن اڑادو۔ امام مالک ؒ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   کے اس ارشاد کا معنی یہ ہیں کہ جو شخص اسلام سے نکل کر زنادقہ وغیرہم میں جاملا، ایسے زنادقہ پر جب مسلمانوں کا غلبہ ہوجائے تو ان سے توبہ طلب کئے بغیر ان کو قتل کیا جائے۔ باقی رہے وہ لوگ جو صرف اسلام سے کفر کی طرف چلے گئے تو ان سے توبہ کرنے کو کہا جائے گا ورنہ ان کا قتل کردیاجائے گا۔۔۔موطا مالک
    حضرت امام شافعیؒ : امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ مرتد پر نہ احسان کیا جائے اور نہ اس سے فدیہ لیا جائے اور اس کو اس کے حال پر بھی نہیں چھوڑا جائے گا یہاں تک کہ وہ مسلمان ہوجائے یا قتل کردیا جائے۔ (کتاب الام) مشہور شافعی عالم ومحدث امام نووی ؒ تحریر کرتے ہیں کہ تمام اہل اسلام کا مرتد کے قتل کرنے پر اجماع ہے، ہاں اس پر اختلاف ہے کہ مرتد پر توبہ پیش کرنا واجب ہے یا مستحب؟ ۔۔شرح مسلم
    حضرت امام احمد ؒ : مشہور ومعروف حنبلی عالم دین امام ابن قدامہ ؒ تحریر کرتے ہیں کہ اکثر اہل علم یہ کہتے ہیں کہ مرتد کو اس پر توبہ پیش کئے بغیر نہ قتل کیا جائے جن میں حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، حضرت عطاؒ ، امام نخعیؒ ، امام مالکؒ ، امام ثوریؒ ، امام اوزاعیؒ ، امام اسحاقؒ اور فقہاء احناف شامل ہیں اور حضرت امام شافعی ؒ کا بھی ایک قول یہی ہے اور حضرت امام احمدؒ سے ایک دوسری روایت میں ہے کہ مرتد سے توبہ کا مطالبہ واجب نہیں ہے لیکن مستحب ہے اور حضرت حسن بصری ؒ سے بھی یہی منقول ہے کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا کہ جو اپنا دین (اسلام) بدل دے تو اسے قتل کردو ۔ توبہ کا مطالبہ اس میں مذکور نہیں ہے۔ ۔۔مغنی
    غرضیکہ قرآن وحدیث اور خلفاء راشدین کے اقوال وافعال کی روشنی میں کی تمام مفسرین، محدثین، فقہاء وعلماء نے یہی فیصلہ فرمایا ہے کہ مرتد کو قتل کیا جائے گا اگر وہ توبہ کرکے دوبارہ اسلام میں واپس آنے کے لئے تیار نہیں ہے۔
    اس مصیبت سے بچنے کی چند تدابیر:
    اس تباہ کن گناہ سے بچنے اور اپنے بھائیوں کو بچانے کے لئے ہمیں چاہئے کہ ہم جذبات پر قابو رکھتے ہوئے حکمت وبصیرت کے ساتھ مندرجہ ذیل چند تدابیر اختیار کریں تاکہ دشمن اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب نہ ہوسکے۔ انشاء اللہ یہ اعمال ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے لئے اس دشوار کن گھڑی میں انتہائی مفید ثابت ہوں گے۔
    اللہ کے گھر یعنی مساجد سے اپنے خصوصی تعلق رکھیں کیونکہ مساجد مسلمانوں کی نہ صرف تربیت گاہیں ہیں بلکہ مساجد مسلم معاشرہ کی عکاسی کرتی ہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: سات قسم کے آدمی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ اپنی (رحمت کے) سایہ میں ایسے دن جگہ عطا فرمائے گا جس دن اس کے سایہ کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔ اُن سات لوگوں میں سے ایک وہ شخص بھی ہے جس کا دل مسجد سے اٹکا ہوا ہو۔ دنیا میں سب سے پہلا گھر بیت اللہ ہے جو مسجد حرام کے وسط میں واقع ہے جس کی طرف رخ کرکے ہم ایمان کے بعد سب سے اہم رکن یعنی نماز کی ادائیگی کرتے ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے مدینہ منورہ پہنچنے سے تھوڑا قبل قبا میں اور مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد سب سے پہلے مسجد کی بنیا رکھی جو بعد میں مسجد نبوی کے نام سے موسوم ہوئی، جو اسلام کے دنیا کے کونے کونے تک پہنچنے کا ذریعہ بنی۔ لہٰذا ہم خود بھی نمازوں کا اہتمام کریں اور اس بات کی کوشش کریں کہ ہماری مسجدیں آباد ہوں۔ اگر ہمارا تعلق مسجد سے جڑا ہوا ہے تو جہاں اللہ جل شانہ سے قربت حاصل ہوگی وہیں ان شاء اللہ دشمنان اسلام کی تمام کوششیں بھی رائیگاں ہوں گی۔
    علماء کرام اور عوام کے درمیان رشتہ کو اور مضبوط بنانے کی کوشش کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے علمائے کرام کے متعلق یہ اعلان فرمایا ہے: ’’إنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَاءُ‘‘ (سورۃالفاطر:۲۸ ) اللہ سے اس کے بندوں میں سے وہی لوگ ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں۔ آج عالمی سطح پر دشمنان اسلام کا مقصد ہے کہ اسلامی تہذیب کو ختم کرکے مسلمانوں پر اپنی تہذیب تھوپ دیں۔ علماء کرام ان کے مقصد کی تکمیل میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں، لہٰذا دشمنان اسلام علماء کرام کو بدنام کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور علماء کرام اور عوام کے درمیان مضبوط رشتہ کو توڑنے کے لیے علماء کرام اور مدارس اسلامیہ کی غلط امیج لوگوں کے سامنے پیش کرنے کی ناپاک کوشش کررہے ہیں جس میں وہ ان شاء اللہ ناکام ونامراد ہوں گے کیونکہ علماء کرام نے بچہ کی ولادت کے وقت کان میں اذان دینے سے لے کر نماز جنازہ پڑھانے تک امت مسلمہ کی دینی وتعلیمی وسماجی رہنمائی کے لئے ایسی خدمات پیش کی ہیں کہ ایک مسلمان بھی ایسا نہیں مل سکتا جو ان خدمات سے مستفیض نہ ہوا ہو۔
    موجودہ مکاتب ومدارس کی بقاء کے لئے ہرممکن کوشش کریں اور جن علاقوں یا دیہاتوں میں مکاتب ومدارس نہیں ہیں وہاں مکاتب ومدارس کے قیام کی فکر کریں۔ قرآن وحدیث کی حفاظت وخدمت میں مکاتب ومدارس نے جو کردار ادا کیا ہے وہ تاریخ کا ایک ناقابل فراموش حصہ ہے ، برصغیر میں قرآن وحدیث کی مختلف طریقوں سے بالواسطہ یا بلا واسطہ خدمت انجام دینے میں انہیں مکاتب ومدارس کا رول ہے۔
    اسکول وکالج میں زیر تعلیم بچوں کی دینی تعلیم کی فکر کریں کیونکہ آج جو طلبہ عصری درس گاہوں سے پڑھ کر نکلتے ہیں ان میں ایک بڑی تعداد دین سے بے بہرہ لوگوں کی ہوتی ہے اور ایک قابل لحاظ تعداد تو دین سے بیزار لوگوں کی ہوتی ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کے زیر اہتمام یونیورسٹیوں، کالجوں اور اسکولوں کے ذمہ داروں سے درخواست ہے کہ دینی تعلیم وتربیت کو صرف نام کے لیے نہ رکھا جائے کہ نہ اساتذہ اسے اہمیت دیں اور نہ طلبہ وطالبات، بلکہ شرعی ذمہ داری سمجھ کر ان کی دینی تعلیم وتربیت پر خاص توجہ دی جائے۔ بچوں کے والدین اور سرپرستوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ اسکولوں وکالجوں کا انتخاب ایمان وعقیدے کی حفاظت کی فکر کے ساتھ کریں۔ جب تک ہمارے بچے دینی تعلیم سے واقف نہیں ہوں گے ہم کس طرح ان کو دشمنان اسلام کی ناپاک سازشوں سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ یقیناًہم اپنے بچوں کو ڈاکٹر، انجینئر اور ڈیزائنر بنائیں لیکن سب سے قبل ان کو مسلمان بنائیں۔ لہٰذا اسلام کے بنیادی ارکان کی ضروری معلومات کے ساتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   کی سیرت اور اسلامی تاریخ سے ان کو ضرور بالضرور روشناس کرائیں۔
    حکمت وبصیرت کے ساتھ ایک دوسرے کو دین اسلام کی دعوت دیتے رہیں کیونکہ سلسلہ نبوت ختم ہوجانے کے بعد دعوت وتبلیغ کی عظیم ذمہ داری اس امت محمدیہ کے ہر ہر فرد پر اپنی استطاعت کے مطابق لازمی قرار دی گئی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام (سورۃ التوبۃ آیت ۷۱) میں ارشاد فرمایا ہے کہ مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں، اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں، بری باتوں سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور اللہ واس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ عنقریب رحم فرمانے والا ہے۔ اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے مؤمن مرد اور مؤمن عورتوں کی چند صفات ذکر فرمائی ہیں جن میں سب سے پہلی صفت ذکر کی کہ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں۔
    مالدار اور ذی حیثیت حضرات اپنے تعاون کی رقم کا ایک قابل قدر حصہ مسلمانوں کے کمزور طبقہ کے لئے مختص کریں ۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت واطاعت کا مکلف کرتے ہوئے اس روئے زمین پر اپنا خلیفہ مقرر کیا تاکہ انسان اللہ تعالیٰ کی شریعت پر عمل کرے اور ایک منصفانہ سماج کی تشکیل کے لئے کوشاں رہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے یقیناًجسمانی ومالی دونوں طرح کی قربانی درکار ہوتی ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّی تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّوْنَ (سورۃ آل عمران ۹۲) جب تک تم اپنی پسندیدہ چیز اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہیں کرو گے ہرگز بھلائی نہیں پاؤگے۔ لہٰذا ہم اپنی زکوٰۃ کی ادائیگی کے اہتمام ساتھ اپنے مال میں سے کچھ حصہ ضرور کمزورطبقہ کی فلاح وبہبود پر لگائیں۔ آج اگر ہم زکوٰۃ کی صحیح طریقہ سے ادائیگی کرنے والے بن جائیں تو امت مسلمہ کے بے شمار مسائل حل ہوجائیں گے ان شا ء اللہ۔
    اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو اپنی رضا والے کام کرنے کی توفیق عطا فرما، بر صغیر کے علماء ومدارس کی حفاظت فرما، اسلام مخالف عناصر کو صفحۂ ہستی سے مٹادے اور ہمارا خاتمہ ایمان پر فرما، آمین۔
    محمد نجیب قاسمی سنبھلی، ریاض

  • کامینٹس

    کوئی کامینٹ موجود نہیں ہے۔