بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
مسئلہ بیمہ (Insurance)
مغرب سے متاثر ہوکر اب مسلمانوں نے بھی زندگی، مکان، گاڑی اور مختلف اشیاء کے انشورنس کرانے کو اپنی ضرورت سمجھنا شروع کردیا ہے ، لیکن ہمیں چاہئے کہ انشورنس کے جواز یا عدم جواز یا اضطراری حالت میں اسکی بعض شکلوں کے جواز کے متعلق قرآن وحدیث کی روشنی میں علماء کرام سے مسئلہ دریافت کریں اور پھر اس کے مطابق عمل کریں۔ یاد رکھیں کہ انشورنس کی تاریخ بہت زیادہ قدیم نہیں ہے، ایشیائی ممالک میں تو اس کا رواج تقریباً ۲۰۔۲۵ سال سے ہی زیادہ ہوا ہے۔ تمام مکاتب فکر کے علماء کرام کا اتفاق ہے کہ دنیا میں رائج بیمہ کا نظام اپنی اصل وضع میں جوئے اور سود کا مرکب ہے اور یہ دونوں اسلام میں حرام ہیں، لہذا بیمہ پر بحث کرنے سے قبل مناسب سمجھتا ہوں کہ قرآن کریم کی روشنی میں سود اور جوئے کے حرام ہونے پر مختصر روشنی ڈال دوں۔
سود کی حرمت:
سورۂ البقرہ کی آیات ۲۷۵ سے ۲۷۹ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے سخت الفاظ کے ساتھ سود سے بچنے کی تعلیم دی ہے اور فرمایاکہ سود لینے اور دینے والے اگر توبہ نہیں کرتے ہیں تو وہ اللہ اور اسکے رسول سے لڑنے کے لئے تیار ہوجائیں۔ نیز فرمایا کہ سود لینے اور دینے والوں کو کل قیامت کے دن ذلیل ورسوا کیا جائے گا اور وہ جہنم میں ڈالے جائیں گے، غرضیکہ قرآن کریم میں سود کو اتنا بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے کہ شراب نوشی، خنزیر کھانے اور زنا کاری کے لئے قرآن کریم میں وہ لفظ استعمال نہیں کئے گئے جو سود کے لئے اللہ تبارک وتعالیٰ نے استعمال کئے ہیں۔ ۲۷۵ سے ۲۷۹ آیات کا خلاصۂ تفسیر پیش ہے:
جولوگ سود کھاتے ہیں وہ قیامت میں اس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے چھوکر پاگل بنادیا ہو۔ سود کی بعض شکلوں کو جائز قرار دینے والوں کے لئے فرمان الہی ہے کہ یہ ذلت آمیز عذاب اس لئے ہوگا کہ انہوں نے کہا تھا کہ بیع بھی تو سود کی طرح ہوتی ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے بیع یعنی خرید وفروخت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔ لہذا جس شخص کے پاس اس کے پروردگار کی طرف سے نصیحت آگئی اور وہ سودی معاملات سے باز آگیا تو ماضی میں جو کچھ ہوا وہ اسی کا ہے اور اس کی باطنی کیفیت کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حوالہ ہے۔ اور جس شخص نے لوٹ کر پھر وہی یعنی سود کا کام کیاتو ایسے لوگ دوزخی ہیں، وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔ جب سود کی حرمت کاحکم نازل ہوا تو لوگوں کا دوسروں پر سود کا جتنا بھی بقایا تھا، اس کو بھی لینے سے منع فرمادیاگیا اور ارشاد فرمایا کہ اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑدو ،اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو۔ اور اگر ایسا نہیں کرتے تو تم اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے لڑنے کے لئے تیار ہوجاؤ۔۔۔ غرضیکہ سود کھانے والوں کے لئے اللہ اور اسکے رسول کی طرف سے اعلان جنگ ہے اور یہ ایسی سخت وعید ہے جو کسی اور بڑے گناہ مثلاً زنا کرنے، شراب پینے کے ارتکاب پر نہیں دی گئی۔
جوئے کی حرمت:
اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اے ایمان والو! شراب، جوا، بتوں کے تھان اور جوئے کے تیر یہ سب ناپاک شیطانی کام ہیں،لہذا ان سے بچو، تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔ شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان دشمنی اور بغض کے بیج ڈال دے اور تمہیں اللہ کی یاد اور نماز سے روک دے۔ اب بتاؤ کہ کیا تم (ان چیزوں سے) باز آجاؤ گے؟(سورۂ المائدہ ۹۰۔۹۱)
ان آیات میں چار چیزیں قطعی طور پر حرام کی گئی ہیں۔ ۱) شراب۔ ۲) قمار بازی یعنی جوا۔ ۳) بتوں کے تھان یعنی وہ مقامات جو اللہ کے سوا کسی دوسرے کی عبادت کرنے یا اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر قربانی اور نذر ونیاز چڑھانے کے لئے مخصوص کئے گئے ہیں۔ ۴) پانسے (جوئے کے تیر)۔ قمار، میسر اور ازلام مترادف الفاظ ہیں، اگرچہ معنی میں معمولی سا فرق ہے، لیکن ان تمام الفاظ کے معنی جوئے کے ہی ہیں، جس کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس فعل کو شیطان کا ناپاک عمل قرار دیا ہے جس کے ذریعہ وہ انسانوں کو صراط مستقیم سے بہکانے کا جو عہد اس نے کر رکھا ہے اس کو پورا کرسکے، اِس کے اندر اگر کوئی پہلو نفع کا نظر آتا ہے تو یہ محض نظر کا دھوکہ ہے، اس کے نقصانات نفع کے مقابلہ میں اتنے زیادہ ہیں کہ حقیر نفع کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دنیا وآخرت کی فلاح اسی میں ہے کہ ان چیزوں سے بچا جائے۔ اور آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں کی ایک اور خرابی ذکر فرمائی ہے کہ یہ چیزیں تمہیں اللہ تعالیٰ کی یاد اور نماز سے غافل کردیتی ہیں۔ غرضیکہ اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے جوئے کو شراب کے برابر قرار دیا تاکہ جوئے کی حرمت میں کوئی شک وشبہ باقی نہ رہے۔
تقدیر پر ایمان میں خلل:
انشورنس کے منفی پہلووں میں سے تیسرا اہم منفی پہلو یہ ہے کہ انشورنس تقدیر پر ایمان سے کسی حد تک عملی انکار کا سبب بنتا ہے، جبکہ تقدیر پر ایمان رکھنا ہر مسلمان کے لئے ضروری اور ایمان کے ارکان میں سے ایک ہے۔ تقدیر پر ایمان کا تقاضہ ہے کہ جائز وشرعی اسباب ووسائل اختیار کئے جائیں اور مستقبل میں پیش آنے والے حالات اللہ تعالیٰ کے سپرد کئے جائیں اور اس کا یقین رکھا جائے کہ خوشحالی اور پریشانی سب اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے آتی ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے فیصلہ کو کوئی دنیاوی طاقت ٹال نہیں سکتی ہے۔ جبکہ انشورنس اس سے فرار کی راہ ہے کیونکہ اس میں پہلے سے حالات وحوادث کی پیش بندیاں ناجائز طریقوں سے کی جاتی ہیں۔
بیمہ (Insurance) کی حقیقت:
انشورنس میں بعض شرائط پر ایک شخص کو دوسرے کی طرف سے مستقبل میں پیش آنے والے امکانی خطرات سے حفاظت اور بعض امکانی نقصانات کی تلافی کی یقین دہانی کرائی جاتی ہے، جس شخص کے لئے خطرات سے حفاظت اور نقصانات کی تلافی کی یقین دہانی کرائی جاتی ہے وہ ایک معین مدت تک ایک مقررہ رقم بیمہ کمپنی کو ادا کرتا ہے۔ غرضیکہ بیمہ کرانے والے اور بیمہ کمپنی کے درمیان ایک طرح کا عقد ہوتا ہے اور شرعی اعتبار سے عقد کے لئے ضروری ہے کہ کسی عین یا منفعت پر قائم ہو ورنہ عقد باطل ہوگا، یعنی یاتو عقد عوض کے ساتھ عین پر قائم ہو جیسے خرید وفروخت اور شرکت وغیرہ یا پھر بلاعوض عین کے ساتھ جیسے ہبہ یا عوض کے ساتھ منفعت پر قائم ہو جیسے کرایہ داری یا پھر بلاعوض منفعت کے جیسے ادھار۔ جہاں تک بیمہ کا تعلق ہے تو اس میں عقد کی یہ شرطیں مفقود ہیں، بلکہ یہ تو مبہم معاوضہ کی ایک ذمہ داری لینے کے مترادف ہے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ یہ ذمہ داری لینا حرام ہے یا حلال یا کچھ شرائط کے ساتھ حلال ہے۔ لہذا انشورنس کی رائج شکلوں کو الگ الگ ذکر کرکے اس کا شرعی حکم ذکر کررہا ہوں، اس سلسلہ میں حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم کے مضامین سے خاص استفادہ کیا گیا ہے:
زندگی کا بیمہ(Life Insurance):
زندگی کے بیمہ کا ماحصل یہ ہے کہ بیمہ کرانے والا بیمہ کمپنی کو ایک معین مدت تک کچھ قسطیں ادا کرتا ہے جس کو پریمیم کہتے ہیں۔ معین مدت کی تعیین طبی معاینہ کے ذریعہ ایک اندازہ لگاکر مقرر کی جاتی ہے۔ فرض کریں کہ دس سال کی زندگی کا اندازہ کیا گیا تو دس سال تک یہ شخص ہر مہینہ کچھ قسطیں مثلا ایک ہزار روپئے ماہانہ جمع کرے گا، اس طرح ایک سال میں بارہ ہزار اور دس سال میں ایک لاکھ بیس ہزار روپئے جمع ہوں گے۔ اب اگر دس سال کے عرصہ میں بیمہ کرانے والے کا انتقال ہوجاتا ہے تو بیمہ کمپنی ایک خاص رقم مثلاً پانچ لاکھ اس شخص کو ادا کرے گی جس کا بیمہ کرانے والے نے بیمہ کراتے وقت نام پیش کیا تھاخواہ وہ شرعی اعتبار سے وارث ہو یا نہیں یا اُس کے علاوہ بھی دیگر وارث ہوں۔ اور اگر بیمہ کرانے والے کا دس سال تک انتقال نہیں ہوا تو جمع شدہ رقم سود کے ساتھ بیمہ کرانے والے کو واپس کردی جاتی ہے۔ یاد رکھیں کہ بیمہ کمپنی پریمیم کے ذریعہ جمع شدہ رقم کو بینک میں رکھ کر اس پر سود لیتی ہے۔
زندگی کے بیمہ(Life Insurance) کا شرعی حکم:
اس میں جمع شدہ رقم تو محفوظ ہے یعنی اسکی واپسی یقینی ہے البتہ واپسی کی رقم مجہول ہے کہ مسئلہ مذکور میں ایک لاکھ بیس ہزار ملیں گے یا پانچ لاکھ یعنی معاوضہ مجہول ہے، اسکی مقدار معلوم نہیں ہے، لہذا یہ جوا ہوا،نیز واپسی رقم سود کے ساتھ ملتی ہے، اور بیمہ کمپنی حاصل کردہ رقم بینک میں جمع کرکے سود بھی لیتی ہیں، مزید یہ کہ زندگی کا بیمہ کرانا تقدیر پر ایمان کے خلاف ہے۔لہذا زندگی کا بیمہ (Life Insurance) سود اور جوئے پر مبنی ہونے کی وجہ سے حرام ہے، نیز اس میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے متعین کردہ وراثت کے نظام کی خلاف ورزی بھی ہے۔
املاک یا اشیاء کا بیمہ(Goods Insurance):
مختلف اشیاء کا بیمہ کرایا جاتا ہے کہ اگر وہ اشیاء تباہ ہوجائیں یا اس میں نقصان ہوجائے تو بیمہ کرانے والے کوچیز کی قیمت ملے گی یا اسکی مرمت کرائی جائے گی، مثلاً عمارت یا دوکان کا بیمہ کرالیا جائے کہ اگر عمارت یا دوکان میں آگ لگ گئی تو بیمہ کمپنی اتنے پیسے دے گی جو عمارت یا دوکان کی قیمت کے برابر ہوگی اور اگر جزئی نقصان ہوا ہے تو نقصان کی تلافی کی جائے گی۔ اسی طرح سامان کا بیمہ کرایا جاتا ہے کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجنے میں اگر سامان ضائع ہوجائے تو اس کی قیمت مل سکے۔ اسی طرح گاڑیوں کا بیمہ کرایا جاتا ہے کہ اگر چوری ہوجائے یا آگ لگ جائے یا کسی حادثہ میں تباہ ہوجائے وغیرہ وغیرہ تو بیمہ کمپنی اس گاڑی کی قیمت ادا کرتی ہے یا اس کی مرمت کراتی ہے، لیکن اس کے لئے بیمہ کرانے والے کو ماہانہ یا سالانہ کچھ رقم بیمہ کمپنی کو ادا کرنی ہوتی ہے، جس کو پریمیم کہتے ہیں، جو واپس نہیں ملتی خواہ کوئی حادثہ پیش آئے یا نہیں۔
املاک یا اشیاء کے بیمہ (Goods Insurance) کا شرعی حکم:
جمہور علماء کی رائے ہے کہ یہ بھی ناجائز ہے کیونکہ اس میں غرر یعنی جوئے کا عنصر موجود ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلہ میں ساری انسانیت کے لئے ایک اصول بتایا: لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ نہ آدمی خود کو نقصان میں ڈالے اور نہ دوسروں کو نقصان پہنچائے۔ (موطا مالک، مسند احمد، ابن ماجہ، دار قطنی) ایک طرف سے پریمیم دے کر ادائیگی متیقن ہے لیکن دوسری طرف سے معاوضہ مجہول ہے اور معلق علی الخطر ہے کہ اگر حادثہ پیش آگیا تو معاوضہ ملے گا اور حادثہ پیش نہیں آیا تو کوئی معاوضہ نہیں ملے گا، لہذا اسمیں غرر یعنی دھوکا پایا جاتا ہے، جمہور علماء اِس قسم کے بیمہ کے حرام ہونے کے قائل ہیں البتہ بعض علماء مثلاً شیخ مصطفی الزرقاء کی رائے ہے کہ یہ بیمہ جائز ہے۔ ہاں اگر کسی حکومت کی جانب سے اِس نوعیت کا بیمہ کرانا لازمی اور ضروری ہوجائے تو پھر بدرجہ مجبوری کرایا جاسکتا ہے۔
ذمہ داریوں کا بیمہ(Third Party Insurance):
بیمہ کی تیسری قسم ذمہ داری کا بیمہ ہوتا ہے جس کو Third Party Insurance کہتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر بیمہ کرانے والے کے ذمہ کسی تیسری پارٹی کی طرف سے کوئی مالی ذمہ داری عائد ہوگئی تو بیمہ کمپنی اُس ذمہ داری کو پورا کرے گی۔ مثلاً گاڑی سے کسی دوسرے شخص یا کسی دوسری گاڑی کو نقصان پہنچنے کی صورت میں دوسرے شخص کی گاڑی کی نقصان کی تلافی بیمہ کمپنی کے ذمہ ہوگی، لیکن اِس کے لئے بیمہ کرانے والے کو ماہانہ یا سالانہ کچھ رقم بیمہ کمپنی کو ادا کرنی ہوتی ہے، جس کو پریمیم کہتے ہیں، جو واپس نہیں ملتی خواہ کوئی حادثہ پیش آئے یا نہیں۔
ذمہ داریوں کے بیمہ(Third Party Insurance) کا شرعی حکم:
دوسری قسم کی طرح ذمہ داریوں کے بیمہ کے متعلق بھی جمہور علماء کی رائے اس کے حرام ہونے کی ہی ہے اگرچہ بعض علماء نے اس کے جواز کا اس شرط کے ساتھ فیصلہ کیا ہے کہ بیمہ کمپنی کا کاروبار سود پر مبنی نہ ہو۔
صحت کا بیمہ (Health Insurance) اور اس کا شرعی حکم:
جس ملک میں صحت کا بیمہ کرانا ضروری اور لازمی ہے وہاں مجبوری کی وجہ سے کرایا جاسکتا ہے، ورنہ حتی الامکان بچنا چاہئے، کیونکہ اس میں بھی غرر ضرور ہے کہ بیمہ کرانے والے کی طرف سے پریمیم کی ادائیگی متیقن ہے لیکن معاوضہ مجہول ہے اور ادا کردہ رقم واپس نہیں ہوتی خواہ آدمی بالکل بیمار ہی نہ ہو۔
بیمہ کمپنی کا تعارف (Insurance Company):
بیمہ کی مذکورہ اقسام کو تجارتی بیمہ (Commercial Insurance)کہتے ہیں، اس میں ایک کمپنی اِسی مقصد کے لئے قائم کی جاتی ہے اور ان کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ پہلے اکچوری (Acuary) حساب کے ذریعہ یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ جو حوادث وواقعات پیش آتے ہیں، ان کا سالانہ اوسط کیا ہے، سال میں کتنی جگہ آگ لگتی ہے، کتنی جگہوں پر گاڑیوں کا ایکسیڈینٹ ہوتا ہے ، کتنی جگہ ریل کا تصادم ہوتا ہے، کتنے جہاز ڈوبتے ہیں، کتنے زلزلے آتے ہیں، کتنے لوگ بیمار ہوتے ہیں، وغیرہ وغیرہ، اس کا ایک اوسط نکالتے ہیں اور اس اوسط کی بنیاد پر آنے والے سالوں کے لئے بھی وہ حادثات کا تخمینہ لگاتے ہیں کہ آئندہ سال اس قسم کے متاثرہ اشخاص کو معاوضہ دیا جائے تو کل کتنے اخراجات آئیں گے، اور قسطوں پر حاصل شدہ رقم کو بینک میں جمع کرنے پر کتنا سود ملے گا۔ فرض کریں کہ انہوں نے آئندہ سال پیش آنے والے حادثات کا انذازہ لگایا کہ ایک ارب روپیہ ہے، اب بیمہ کمپنی یہ کرتی ہے کہ اگر ہم ایک ارب روپئے خرچ کرکے ان سارے حادثات کا معاوضہ ادا کردیں تو ہمیں لوگوں سے کتنی قسطوں کا مطالبہ کرنا چاہئے اور اس پر ہمیں کتنی رقم سود کی ملے گی جس سے نہ صرف یہ کہ ایک ارب روپئے حاصل ہوں بلکہ ایک ارب سے زیادہ حاصل ہوں جو ہمارا نفع ہو اور کم از کم کمپنی کے سارے اخراجات کے بعد دس کروڑ کا نفع ہونا چاہئے۔ اب انہوں نے مطلوبہ رقم لوگوں سے وصول کرنے کے لئے قسطوں کی تعداد مقرر کردی کہ جو بھی بیمہ کرائے وہ اتنی قسط ادا کرے، جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جب ساری قسطیں اکٹھی ہوجائیں تو ہمیں کل کتنی رقم ملے گی اور اس پر کتنا سود ملے گا۔ ایک ارب دس کروڑ ملیں گے تو ایک ارب معاوضوں میں دے دیں گے اور دس کروڑ ہمارا نفع ہوجائے گا۔ یہ تجارتی کمپنیوں کا طریقۂ کار ہوتا ہے۔
باہمی امداد (Mutual Insurance) کا طریقۂ کار:
باہمی امداد (جس کو عربی میں التامین التعاونی یا التامین التبادلیکہا جاتا ہے) کا طریقۂ کار یہ ہوتا ہے کہ کچھ لوگ باہم مل کر ایک فنڈ قائم کرتے ہیں، اس کا مقصد ممبران میں سے کسی ممبر کے ساتھ آنے والے حادثہ پر اس کی مدد کرنا ہوتا ہے۔ مثلاً سو اشخاص مل کر ایک ایک ہزار روپئے سالانہ جمع کرتے ہیں کہ اس رقم سے آپس میں کسی ممبر کے ساتھ آنے والے حادثہ پر اس کی مددکریں گے ، رقم کم پڑنے پر دوبارہ رقم ڈالی جاتی ہے اور رقم بچنے پر وہ اگلے سال کے لئے جمع ہوجاتی ہے۔ اس رقم پر کوئی سود نہیں لیا جاتا ہے۔ اس میں تجارت کرنا پیش نظر نہیں ہوتا ہے بلکہ باہم مل کر ایک دوسرے کی مدد کرنے کے لئے یہ فنڈ بنایا جاتا ہے۔ یہ صورت سب کے نزدیک جائز ہے۔
ایک تجویز: دنیا میں رائج سود اور جوئے پر مبنی بیمہ کے تحت مجبوری میں بیمہ کرانے کی صورت میں ادا کردہ رقم سے زیادہ فائدہ حاصل ہونے پر زیادہ رقم صدقہ کردیں اور جمع شدہ رقم سے مکمل استفادہ نہ ہونے پر اس کو صدقہ سمجھ کر چھوڑدیں، لیکن اگر باہمی امداد کے طریقہ پر بیمہ کیا گیا ہے تو پھر کوئی حرج نہیں ان شاء اللہ۔
عصر حاضر میں ہم کیا کریں؟
دنیا میں بیمہ کارائج طریقہ سود اور جوئے پر مبنی ہونے کی وجہ سے اصلاً تو ناجائز ہے، لیکن بعض شعبہ ہائے زندگی میں بیمہ قانوناً لازم ہوگیا ہے، اس کے بغیر گزارہ نہیں ہوسکتا، مثلاً گاڑیوں کا بیمہ۔ دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں گاڑیوں کا کم از کم Third Party Insurance کرانا لازمی ہے۔ اب جہاں قانون نے مجبور کردیا تو پھر علماء کرام نے بدرجہ مجبوری انشورنس کرانے کی گنجائش دی ہے۔
اگر کسی ملک یا کسی جگہ پر واقعی کسی مسلمان کی جان یا مال محفوظ نہیں ہے تو وہاں بھی بیمہ کرانے کی علماء کرام نے اجازت دی ہے۔
عصر حاضر کے علماء کرام نے دنیا میں موجودہ رائج بیمہ کے مقابل جو نظام تجویز کیا ہے وہ باہمی امداد (Mutual Insurance)کی ایک ترقی یافتہ شکل ہے جس کو التامین التعاونی کہا جاتاہے، اس نظام کی بنیاد تبرع ہے نہ کہ عقد معاوضہ، جس کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ مثلاً کچھ افراد نے ایک کمپنی قائم کرلی اور جو سرمایہ جمع ہوا وہ تجارت میں لگادیا پھر اور بیمہ داروں کو دعوت دی جاتی ہے کہ آپ بھی آکر اس میں پیسہ لگائیں، انہوں نے جو رقم دی وہ بھی نفع بخش تجارت میں لگا دی گئی اور ساتھ میں ایک فنڈ بنادیا گیا، جس کے ذریعہ اگر ممبران کو کوئی حادثہ پیش آئے تو اس فنڈ سے اس کی مدد کی جائے۔ سال کے اختتام پر پیسے بچنے پر ممبران کو واپس کردئے جاتے ہیں یا ان کے نام سے یہ رقم فنڈ میں آئندہ سال کے لئے جمع کردی جاتی ہے۔ اس بنیاد پر عرب ممالک میں کچھ کمپنیاں قائم ہوئی ہیں۔ بہرحال بیمہ کے اس نظام کے تحت مطلوب بھی حاصل ہوجارہا ہے اور سود اور جوئے کے عنصر سے کافی حد تک بچاؤ بھی ہے۔ یاد رکھیں کہ ہندوپاک کی بیمہ کمپنیوں میں یہ نظام موجود نہیں ہے، بلکہ ان میں عموماً سود اور جوئے والا نظام ہے۔
خلاصۂ کلام:
جیسے کہ دلائل کے ساتھ ذکر کیا گیا دنیا میں رائج انشورنس کا موجودہ نظام سود اور جوئے پر مشتمل ہے اور ان دونوں کی حرمت قرآن وحدیث میں واضح طور پر موجود ہے، جن کے حرام ہونے پر امت مسلمہ متفق ہے۔ نیز اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا وَےُحَرِّمُ عَلَےْہِمُ الْخَبَاءِثَ (سورۂ الاعراف ۱۵۷) ناپاک چیزوں کو ہی ہم نے حرام کیا ہے یعنی جوئے اور سود کے عنصر سے مرکب بیمہ کے موجودہ نظام کے اندر اگر ہمیں بظاہر نفع نظر بھی آئے مگر خالق کائنات کے کلام کے مطابق اس میں شر ضرور پوشیدہ ہے لہذا حتی الامکان دنیا میں رائج انشورنس کے موجودہ نظام سے بچیں۔ اگر بیمہ کے موجودہ نظام سے بچنے میں بظاہر نقصان نظر آئے تو اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کو یاد رکھیں: جو کوئی اللہ سے ڈرے گا، اللہ اس کے لئے مشکل سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کردے گا۔ اور ایسی جگہ سے رزق عطا کرے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوگا۔ اور جو کوئی اللہ پر بھروسہ کرے تو اللہ اس (کا کام بنانے ) کے لئے کافی ہے۔ (سورہ الطلاق ۲ ، ۳) انشورنس میں یقینی طور پر بعض منافع موجود ہیں لیکن نقصانات اس سے کہیں زیادہ ہیں، اسی وجہ سے علماء کرام نے قرآن وحدیث کی روشنی میں بیمہ کرانے کو ناجائز قرار دیا ہے، شراب میں بھی بعض منافع ہیں جیسے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے مگر نقصانات فوائد سے بہت زیادہ ہیں، جس کی وجہ سے اس کو شریعت اسلامیہ میں حرام کیا گیا ہے ۔۔۔۔ہاں اگر سود اور جوئے سے بالکل محفوظ کسی بیمہ کمپنی میں املاک یا اشیاء کا بیمہ کرایا جائے تو اس کی گنجائش ہے، اسی طرح زندگی کے جس شعبہ میں حکومت کی جانب سے بیمہ کرانا لازمی ہوجائے کہ اب بیمہ کرائے بغیر کوئی چارہ نہیں تو پھر اس شعبہ میں بیمہ کرانے کی گنجائش ہے۔ واللہ اعلم بالصواب،،،،،،
عصر حاضر کے محقق وجدید مسائل سے بخوبی واقف حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم نے اس موضوع پر کافی کچھ تحریر کیا ہے ، میں نے یہ مضمون موصوف کے مضامین سے ہی استفادہ کرکے تحریر کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ موصوف کو دین اسلام کی خدمت کے لئے قبول فرمائے اور ہم سب کو منکرات سے بچ کر زندگی گزارنے والا بنائے، آمین، ثم آمین۔
محمد نجیب قاسمی سنبھلی، ریاض
کوئی کامینٹ موجود نہیں ہے۔