امانت اور اسکے احکام ومسائل

  • بسم الله الرحمن الرحيم

    اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

    امانت اور اسکے احکام ومسائل

    امانت کے احکام ومسائل سمجھنے سے قبل چند تمہیدی باتیں ذہن نشین کرنا ضروری ہیں۔
    ودیعہ یعنی امانت اُس مال یا سامان کو کہتے ہیں جو کسی کے پاس بطور امانت رکھا جائے۔ جس کے پاس امانت رکھی جائے اُس کو مودَع یعنی امانت دار یا امین کہتے ہیں۔ مال یا سامان کے مالک کو مودِع یعنی امانت دہندہ یا امانت گزار کہتے ہیں۔ مثلاً اگر زید نے عبد اللہ کے پاس ایک ہزار روپئے بطور امانت رکھے تو زید امانت دہندہ یا امانت گزار ، عبد اللہ امانت دار یا امین اور ایک ہزار روپئے امانت کہلائیں گے۔
    اسلام نے ہر عمل خیر کے کرنے کی ترغیب اور ہر عمل شر سے بچنے کی تعلیم دی ہے۔ عمل خیر میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنا مال یا سامان کسی شخص کے پاس بطور امانت رکھنا چاہے تو امانت دار یعنی امین کو چاہئے کہ اگر وہ اُس مال یا سامان کی حفاظت کرسکتا ہے تو ساری انسانیت کے نبی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   کی سنت کے مطابق اُس مال یا سامان کو بطور امانت رکھ کر اپنے بھائی کی مدد کرے۔ غرضیکہ شریعت اسلامیہ نے ہمیں اپنے پاس امانت رکھنے اور امانت دہندہ کے مطالبہ پر واپس کرنے کی خصوصی تعلیمات دی ہیں کیونکہ اس کے ذریعہ آپس میں میل جول،محبت اور ایک دوسرے پر بھروسہ پیدا ہوتا ہے جو ایک اچھے معاشرہ کے وجود کا سبب بنتا ہے۔
    حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   کے پاس صحابۂ کرام حتی کہ کفار مکہ بھی اپنی امانتیں رکھا کرتے تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   اس ذمہ داری کو بحسن خوبی انجام دیا کرتے تھے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی امانت داری کو دیکھ کر نبوت سے قبل ہی آپ کو امین کے لقب سے نوازا گیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   نے جب مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کرنے کا ارادہ فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم   کے پاس لوگوں کی جو امانتیں رکھی ہوئی تھیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ کو امانت دہندوں تک پہنچانے کی ذمہ داری عطا فرمائی اور مدینہ منورہ کے لئے ہجرت فرما گئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم   کے بستر پر ہی سوئے تاکہ صبح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   کی نیابت میں ساری امانتیں لوگو ں کو واپس کردیں ا ور کسی شخص کو یہ شبہ بھی نہ ہو کہ نعوذ باللہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   امانتیں لے کر چلے گئے۔
    قرآن وحدیث میں امانت اور اس کے احکام کے متعلق متعدد مرتبہ ذکر آیا ہے۔ چند آیات واحادیث پیش خدمت ہیں:
    یقیناًاللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حق داروں کو پہنچاؤ۔ (سورۃ النساء ۵۸)
    ہاں اگر تم ایک دوسرے پر بھروسہ کرو تو جس پر بھروسہ کیا گیا ہے وہ اپنی امانت ٹھیک ٹھیک ادا کردے۔ (سورۃ البقرۃ ۲۸۳)
    اے ایمان والو! اللہ اور رسول سے بے وفائی نہ کرنا اور نہ جانتے بوجھتے اپنی امانتوں میں خیانت کے مرتکب ہونا۔ (سورۃ الانفال ۲۷)
    اور جو اپنی امانتوں اور عہد کا پاس رکھنے والے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ وہ لوگ ہیں جو جنتوں میں عزت کے ساتھ رہیں گے۔ (سورۃ المعارج ۳۲)
    اسی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   نے ارشاد فرمایا کہ امانت کے طور پر رکھی شیء کو واپس کرنا چاہئے۔ (ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ)
    قرآن وحدیث کی روشنی میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ کسی کا مال یا سامان بطور امانت اپنے پاس رکھنا باعث اجر وثواب ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَتَعَاوَنُوا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْویٰ (سورۃ المائدۃ ۲) نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو۔ نیز حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بندہ کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہے۔ (صحیح مسلم)
    قرآن وحدیث میں وضاحت اور اجماع امت کے ساتھ انسانی زندگی کا تقاضہ بھی ہے کہ امانت رکھنے اور لینے کی اجازت دی جائے۔ لہذا ہمیں چاہئے کہ اگر ہمارا کوئی بھائی یا دوست یا پڑوسی اپنا مال یا سامان بطور امانت ہمارے پاس رکھنا چاہتا ہے اور ہم اس ذمہ داری کو بحسن خوبی انجام دے سکتے ہیں تو ہمیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس کے مال یا سامان کو اپنے پاس بطور امانت رکھ لینا چاہئے اوران شاء اللہ اس عمل خیر پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے اجر عظیم ملے گا۔
    ودیعہ (امانت) کا حکم: عمومی طور پر کسی کا مال یا سامان اپنے پاس بطور امانت رکھنا ایک مستحب عمل ہے جو باعث اجر وثواب ہے۔ البتہ بعض حالات میں امانت (ودیعہ) رکھنا واجب ہوجاتا ہے، مثلاً کسی شخص کا مال غیر محفوظ ہے اور آپ کی امانت میں اس کے مال یا سامان کی حفاظت ہوسکتی ہے اور کوئی دوسرا ذمہ دار شخص موجود نہیں ہے، تو آپ کی ذمہ داری ہے کہ اس شخص کے مال وسامان کو اپنے پاس بطور امانت رکھ لیں تاکہ اس شخص کا مال یا سامان محفوظ ہوسکے۔ امانت رکھنے میں حقیقتاً اپنے بھائی یا پڑوسی یا دوست کی خیر خواہی اور بھلائی مطلوب ہوتی ہے۔ اگر آپ امانت کی حفاظت نہیں کرسکتے ہیں تو آپ کے لئے بہتر ہے کہ آپ کسی کی امانت اپنے پاس نہ رکھیں۔
    اگر کوئی سامان یا رقم بطور امانت رکھ دی گئی تو اس پر متعدد احکام مرتب ہوں گے، ان میں بعض اہم حسب ذیل ہیں:
    مال یا سامان امانت دار یعنی امین کے پاس بطور امانت رہے گا۔
    امانت دار یعنی امین کو حتی الامکان امانت یعنی ودیعہ کی حفاظت کرنی چاہئے۔
    امانت دہندہ یعنی امانت گزار اپنا مال یا سامان کسی بھی وقت واپس لے سکتا ہے۔
    امانت دار یعنی امین امانت کو کسی بھی وقت واپس کر سکتا ہے۔
    امانت دار یعنی امین امانت کی حفاظت یا اس کی بقاکے لئے جو رقم خرچ کرے گا وہ امانت دہندہ کو برداشت کرنی ہوگی، مثلاً جانور امانت میں رکھا گیا تو جانور کے چارہ وغیرہ کا خرچہ، نیز اگر مکان امانت میں رکھا گیا تو اس کی بجلی، پانی وغیرہ کے مصارف اور اسی طرح اگر مکان کی حفاظت کی غرض سے کچھ کام کروایا گیا تواس کے مصارف امانت دہندہ کو برداشت کرنے ہوں گے ۔
    امانت دار یعنی امین کے لئے جائز ہے کہ وہ امانت کی حفاظت کے لئے اپنی اجرت کی شرط لگائے۔ اگر اجرت طے ہوئی ہے تو امانت دہندہ کو اجرت ادا کرنی ہوگی۔ ہاں اگر اجرت طے نہیں ہوئی لیکن امانت کی حفاظت کے لئے امین کو اپنی زمین کا قابل ذکر حصہ استعمال کرنا پڑ رہا ہے تو جمہور علماء کی رائے ہے کہ وہ اس کا کرایا لے سکتا ہے۔ لیکن امانت رکھنے میں اصل اپنے بھائی یا پڑوسی یا دوست کی خیر خواہی اور بھلائی مطلوب ہوتی ہے، لہذا شروع ہی میں یہ معاملہ طے ہوجائے تو زیادہ بہترہے تاکہ بعد میں کسی طرح کا کوئی اختلاف رونما نہ ہو۔ اجرت لینے کی صورت میں بھی جمہور علماء کی رائے ہے کہ بطور امانت رکھا ہوا مال یا سامان اگر امین کی خیانت کے بغیر ضائع ہوگیا یا اس میں کچھ نقصان ہوگیا تو امانت دار یعنی امین پر کسی طرح کا کوئی مؤاخذہ نہیں ہوگا۔ امین کو چاہئے کو وہ ودیعہ یعنی امانت سے کوئی فائدہ نہ اٹھائے، ہاں اگر امین نے امانت دہندہ سے امانت میں رکھی ہوئی شیء سے استفادہ کرنے کی اجازت لے لی ہے تو پھر کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر امین کے بے جا تصرف کی وجہ سے ودیعہ میں نقصان ہوا ہے توامین اس کا ذمہ دار ہوگا۔
    قرآن وحدیث کی روشنی میں خیر القرون سے عصر حاضر تک پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ امانت میں رکھا ہوا مال یا سامان امانت دار یعنی امین کے پاس بطور امانت ہوگا، چنانچہ اگر مال یا سامان امانت دار کے ظلم وزیادتی یا کوتاہی کے بغیر ضائع ہوگیا یا اس میں کچھ نقصان آگیا تو امانت دار یعنی امین پر کسی طرح کا کوئی مؤاخذہ نہیں ہوگا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   نے ارشاد فرمایا: اگر کسی شخص کے پاس امانت رکھی گئی تو وہ اس پر لازم نہیں ہوگئی (سنن ابن ماجہ) یعنی اگر امین کے ظلم وزیادتی یا کوتاہی کے بغیر وہ امانت ضائع ہوگئی یا اس میں کچھ نقصان ہوگیا تو امین (امانت دار) پر کوئی تاوان نہیں ہوگا۔ اسی طرح حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   نے ارشاد فرمایا: مغل کے معنی خائن کے ہیں۔ اگر امانت (ودیعہ ) ضائع ہوجائے یا اس میں نقصان ہوجائے اور امانت دار یعنی امین نے کوئی خیانت بھی نہیں کی ہے تو امین پر اس کا کوئی تاوان نہیں ہے ۔اسی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   نے ارشاد فرمایا: "لَا ضَمَانَ عَلَی مُوْتَمَن" (بیہقی) امانت دار پر امانت کے تلف یا اسمیں نقصان ہونے پر کوئی تاوان نہیں ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت علی مرتضیٰ، حضرت عبداللہ بن مسعود اورحضرت جابر رضی اللہ عنہم سے بھی یہی منقول ہے کہ ودیعہ یعنی امانت امین کے ہاتھوں میں بطور امانت ہوا کرتی ہے، یعنی اگر وہ امین کے ظلم وزیادتی یا کوتاہی کے بغیر ضائع ہوجائے یا اس میں کوئی نقصان ہوجائے تو امین پر اس کا کوئی تاوان نہیں ہوگا۔ عقل بھی یہی کہتی ہے کہ جس کے پاس امانت رکھی گئی ہے اور اس نے لوجہ اللہ امانت اپنے پاس رکھی ہے تو نقصان کی صورت میں امین کیوں ذمہ دار بنے گا۔ اگر امین کو ذمہ دار بنادیا گیا تو کوئی بھی امانت رکھنے کے لئے تیار نہیں ہوگا، پھر سارے لوگ اس خیر خواہی کے عمل سے محروم ہوجائیں گے۔
    قرآن وحدیث کی روشنی میں مشہور ومعروف چاروں ائمہ (امام ابوحنیفہؒ ، امام مالک ؒ ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ ) اور دیگر محدثین ومفسرین وعلماء کرام کی بھی یہی رائے ہے۔ تفصیلات کے لئے کویتی اسلامی امور واوقاف کی وزارت سے شائع شدہ موسوعہ فقہیہ کویتیہ کا مطالعہ فرمائیں جو انٹرنیٹ پر بھی مہیا ہے۔ اگر امانت دہندہ (امانت گزار) یہ دعوی کرے کہ امین کے بے جا تصرف کی وجہ سے امانت ضائع ہوئی ہے تو جمہور علماء کی رائے ہے کہ امین سے قسم لی جائے گی کہ اس نے امانت میں کوئی زیادتی یا کوتاہی نہیں کی ہے۔ اور امانت دار یعنی امین کے قسم کھانے پر اس کے حق میں فیصلہ کردیا جائے گا، اس لئے کہ وہ امین ہے، اللہ تعالیٰ نے ودیعہ کو امانت سے تعبیر کیا ہے، لہذا اصل میں اسکو بری الذمہ ہی قرار دیا جائے گا، الا یہ کہ متعدد شواہد اس کے کذب پر واضح طور سے دلالت کریں۔
    خالق کائنات کے حکم سے رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم   نے ایسا حکم صادر فرمایا ہے جس میں معاشرہ کی خیر خواہی ہے کیونکہ امانت دار یعنی امین خدمت خلق کے لئے امانت کو اپنے پاس رکھتا ہے۔ اگر امانت دار یعنی امین کو ضامن قرار دیا جائے تو لوگ امانت رکھنے سے ہی اجتناب کریں گے جس میں عام لوگوں کا ضرر ہے، نیز یہ عمومی مصلحتوں کے خلاف بھی ہے۔
    تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ امانت میں رکھی ہوئی شیء کے منافع امانت دہندہ کو ہی ملیں گے، مثلاً جانور امانت میں رکھا تھا، بچہ کی ولادت ہوگئی، اسی طرح امانت میں رکھے ہوئے باغ کے پھل، نیز زمین امانت میں رکھی تھی اس کی قیمت میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا،وغیرہ ،وغیرہ ۔

    امانت دہندہ (امانت گزار) اور امانت دار (امین ) میں چند شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے، جس میں بنیادی دو شرطیں یہ ہیں کہ دونوں عاقل اور بالغ یا باشعور ہوں۔ اگر امانت دار یعنی امین کا انتقال ہوگیا تو اس کے ورثاء پر لازم ہے کہ امانت یعنی ودیعہ امانت دہندہ کو واپس کریں۔ امین کے کسی لمبے سفر پر جانے کی صورت میں امین کو چاہئے کہ وہ امانت امانت دہندہ کو واپس کرکے جائے، اگر اس وقت امانت دہندہ نہ ملے تو کسی شخص کو مکلف کردے کہ وہ امانت کو امانت دہندہ کے حوالہ کرے کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   نے جب مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کرنے کا ارادہ فرمایا تو آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ان تمام امانتوں کو ان کے مالکین تک واپس کرنے کی ذمہ داری دی تھی۔ ہاں اگر امانت دہندہ امین کے سفر کے باوجود امانت کو اس کی امانت میں رکھنے پر راضی ہے تو کوئی حرج نہیں۔
    امانت دہندہ کو چاہئے کہ امانت کی واپسی پر امانت دار یعنی امین کا شکریہ ادا کرے کیونکہ اس نے لوجہ اللہ یہ خدمت انجام دی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   نے ارشاد فرمایا کہ جو انسانوں کاشکر ادا نہیں کرتاوہ اللہ کا کیاشکر ادا کرے گا۔ (ترمذی) اگر امانت دہندہ‘ امین کو کوئی ہدیہ بھی پیش کردے تو بہتر ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   نے ارشاد فرمایا: اگر تمہارے ساتھ کوئی اچھا برتاؤ کرے تو تم اس کو کچھ اپنی طرف سے پیش کردو۔ اگر تمہارے پاس ہدیہ دینے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے تو تم اس کے لئے خوب دعائیں کرو ۔ (ابوداؤد)
    دوسری جانب امانت دار کو اُس پر کوئی احسان نہیں جتانا چاہئے بلکہ اس نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   کے نقش قدم پر چل کر یہ عمل خیر کیا ہے ، لہذا اللہ تعالیٰ سے اس عمل خیر کے قبول ہونے اور اس پر اجر وثواب کی دعا کرنی چاہئے۔
    جس طرح امانت میں رکھی شیء کی حفاظت کرنا امین کی ذمہ داری ہے، اسی طرح یہ دنیاوی فانی زندگی، مال واولاد ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی امانتیں ہیں، لہذا ہمیں ہمیشہ ان عظیم امانتوں کی صحیح ادائیگی کی فکر کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ہم نے یہ امانت آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر پیش کی تو ا نہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اس کا بوجھ اٹھالیا۔ (سورۃ الاحزاب ۷۲) اپنی اخروی زندگی کی تیاری کے ساتھ اپنے بچوں اور ماتحتوں کے مرنے کے بعد کی زندگی کی بھی تیاری کی فکر کرنا ہماری ذمہ داری ہے، جس کے متعلق کل قیامت کے دن ہم سے پوچھا جائے گا۔
    اگر ہم ملازمت کررہے ہیں تو کام کے اوقات ہمارے لئے بطور امانت ہیں، لوگوں سے جو ہم عہد وپیمان کرتے ہیں وہ بھی ہمارے پاس بطور امانت ہیں، اگر کسی شخص نے اپنے راز کی باتیں ہمیں بتائی ہیں تو وہ بھی ہمارے پاس بطور امانت ہیں، ان کا پورا کرنا ہماری شرعی واخلاقی ذمہ داری ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   نے ارشاد فرمایا جب امانتوں میں خیانت ہونے لگے تو بس قیامت کا انتظار کرو۔ (صحیح بخاری) اسی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   نے ارشاد فرمایا : منافق کی تین علامتیں ہیں: ۱) جھوٹ بولنا۔ ۲) وعدہ خلافی کرنا۔ ۳) امانت میں خیانت کرنا۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم)
    نوٹ: اگر آپ نے قرضہ لیا ہے تووہ آپ کو واپس کرنا ہی ہوگا خواہ قرض میں لی گئی رقم آپ کے تصرف کے بغیر ضائع ہوئی ہے۔ اسی طرح اگر آپ نے کوئی چیز استعمال کرنے کے لئے مانگی ہے اور وہ کسی بھی طرح ضائع ہوگئی تو اس کا تاوان دینا ہوگا۔
    اللہ تعالیٰ ہم سب کو امانتوں کی حفاظت کرنے والا بنائے اور ہمیں امانت دہندہ تک صحیح سالم امانت لوٹانے والا بنائے، آمین ، ثم آمین۔
    محمد نجیب قاسمی سنبھلی، ریاض

  • کامینٹس

    کوئی کامینٹ موجود نہیں ہے۔

  • Previous
  • Next